ابھی بیڑیاں بھی سجاؤں گا

ابھی بیڑیاں بھی سجاؤں گا
ابھی اڑ رہا ہوں زمین رنگ فضاؤں میں
کوئی بھاری بھرکم و بے قرار بدن لیے
جیسے نیلے رنگ کی کچی دھند سے خوف ہے
وہ جو سانس بن کے بدن میں شامل حال ہے
میں اسی کے گھر کے کگر پہ بیٹھا ہوا ہوں
دامنِ تار تار وطن لیے
میں گرا تو خوف سے دل حلق میں اٹک گیا
یہی پل تھا جس میں اصول فطرتِ سنگ کو
کوئی وہم آ کے جھٹک گیا
مجھے کیا خبر تھی
نگاہِ لرزشِ جاں سے سرد ہواؤں تک
مجھے بانہوں بانہوں سنبھالنے کو ہزار ہیں
میں سُبک خرام
کہ دھیرے دھیرے اتر رہا ہوں
خود اپنے درد کے فرش پر
ابھی ایڑیاں بھی جماؤں گا
ابھی بیڑیاں بھی سجاؤں گا
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *