آپ کس طرح کا آزار لیے پھرتے ہیں

آپ کس طرح کا آزار لیے پھرتے ہیں
یہ تو ہر بستی میں دو چار لیے پھرتے ہیں
ایک مدت ہوئی بچھڑے ہوئے تم سے لیکن
آنکھ میں آج بھی آثار لیے پھرتے ہیں
حوصلہ دیکھو ہمارا بھی کہ ہم سینے میں
عمر بھر سے ترا بیمار لیے پھرتے ہیں
دل تو ویرانہ ہے مارا ہوا تنہائی کا
ہم نگر میں اسے بیکار لیے پھرتے ہیں
دشت میں رہتے ہیں کرتے ہوئے پانی کی تلاش
یوں خموشی میں بھی اظہار لیے پھرتے ہیں
اس طرح آتے ہیں سب دیکھ کے صحرا میں ہمیں
جیسے ہم سایہِ دیوار لیے پھرتے ہیں
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *