اُجڑے ہوئے لوگوں کے حوالے نہ دیا کر

اُجڑے ہوئے لوگوں کے حوالے نہ دیا کر
جاتے ہوئے دروازوں پہ تا لے نہ دیا کر
آ جائے گی خوابوں میں ترے بھیس بدل کر
خواہش کو کبھی دیس نکالے نہ دیا کر
ہم لوگ خزاؤں کا اثاثہ ہیں مری جاں
گرتے ہوئے پیڑوں کو سنبھا لے نہ دیا کر
یا ہم کو تُو عادی نہ بنا تیرگیوں کا
یا اس طرح یکلخت اجا لے نہ دیا کر
تُو کوئی سمندر ہے تو بپھرا بھی کبھی کر
دریا ہے تو لہروں کو اچھا لے نہ دیا کر
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *