لا علمی کی دو نظمیں

لا علمی کی دو نظمیں
()
مجھے اچھی طرح معلوم ہے
تیرا کہیں رستوں میں آملنا ذرا ممکن نہیں
ان راستوں نے۔۔ جو جدا لکھے ہیں ہم نے خود اپنے ہی ہاتھوں سے
ہمارا ہجر طے کر کے ہزاروں فاصلوں کی تہ
ہمارے پاؤں باندھی ہے
بھلا تُو ان سبھی لوگوں میں کب تک رُک سکا ہو گا
کہ وہ تو خود تجھے اپنی برہنہ آستینوں پر
ذرا بس جسم کی مجبوریوں تک سفر اک اجنبی لکھ آیا کرتے تھے
مجھے یہ بھی خبر ہے
تو وہاں پر بھی نہیں ہوگا
سلگتی دھوپ کی رُت میں
گھڑی دو بھر ٹھہرنے کا جہاں تیرا ارادہ تھا
کہ جب تک سوچ میں فطری تقاضے سچ نہیں ہوتے
ارادے جھوٹ ہوتے ہیں
مجھے یہ بھی پتہ ہے
ہم اَنا کے موڑ پر بچھڑے ہوئے ہیں
اور زمینوں پر کہیں ایسی گزرگاہیں نہیں ہیں
جو کبھی اس موڑ پر بچھڑے ہوئے لوگوں کو پھر سے لا ملاتی ہیں
مجھے معلوم ہے سب کچھ مجھے معلوم ہے لیکن
نہ جانے کیوں میں پھر بھی روز تجھ کو ڈھونڈنے گھر سے نکلتا ہوں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – آنکھوں کے پار چاند)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *