اک قطرہِ ملال بھی بویا نہیں گیا

اک قطرہِ ملال بھی بویا نہیں گیا
وہ خوف تھا کہ لوگوں سے رویا نہیں گیا
یہ ٹھیک ہے کہ تیری بھی نیندیں اجڑ گئیں
تجھ سے بچھڑ کے ہم سے بھی سویا نہیں گیا
اُس رات تُو بھی پہلے سا اپنا نہیں لگا
اُس رات کھُل کے مجھ سے بھی رویا نہیں گیا
دامن سے خشک آنکھ بھی چپ چاپ ہے بہت
لڑیوں میں آنسوؤں کو پرویا نہیں گیا
اِس سے تو لگ رہا ہے کہ دورانِ خون میں
اچھی طرح سے درد بلویا نہیں گیا
الفاظ تلخ بات کا انداز سرد ہے
پچھلا ملال آج بھی گویا نہیں گیا
اب بھی کہیں کہیں پہ ہے کالک لگی ہوئی
رنجش کا داغ ٹھیک سے دھویا نہیں گیا
فرحت عباس شاہ
(کتاب – ہم جیسے آوارہ دل)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *