اے خدا

اے خدا
اے خدا اے خدا
کھولتا کیوں نہیں کھولتا کیوں نہیں
اے خدا یہ گرہ کھولتا کیوں نہیں
میری دھرتی کے سینے پہ کس نے دھرا
بوجھ بارود کا
میری دھرتی کی آنکھوں میں کس نے بھرا
خوف نمرود کا
میری دھرتی کے بیٹوں کے خوابوں کو کس نے
لکھا۔۔۔ رائیگاں
میری دھرتی کے مظلوم، محکوم، معصوم، لاچار کو
کس گنہگار نے یوں کیا بے زباں
کس نے بچوں کی سانسوں کو مشکل کیا
کس نے ماؤں کے سینوں کو خالی کیا
کس نے اس پاک مٹی کو کالا کیا
کس نے دریاؤں سے پیاس تک چھین لی
آس تک چھین لی
کس نے سہمی ہوئی بیٹیوں کی نگاہوں کو زخمی کیا
کس نے شرم و حیا کا کفن چھین کر
لاش بازار کے چوک میں پھینک دی
اے خدا اے خدا کون ہے؟ کون ہے؟
جس نے زخموں میں تاریں پرو دیں مگر
بے خبر آسماں ڈولتا کیوں نہیں؟
اے خدا اے خدا
تو بھی خاموش ہے
بولتا کیوں نہیں بولتا کیوں نہیں؟
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *