بادل جتنا نازک تھا

بادل جتنا نازک تھا
بارش جیسا کومل تھا
خوشبو جیسی رنگت تھی
گیتوں جیسی آنکھیں تھیں
چہرہ جیسے کرنیں ہوں
رنگوں جیسی خوشبو تھی
رستوں پر شب اتری ہے
آس سیہ کر جائے گی
بادل کی شکلیں کتنی
بارش کے بہروپ بہت
دکھ کی شاخوں کی پریاں
دل سے لپٹی رہتی ہیں
آنے والا موسم بھی
پہلے جیسا ہی ہوگا
فرحت عباس شاہ
(کتاب – عشق نرالا مذہب ہے)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *