بازگشت

بازگشت
کہاں ہو تم
تمہارے نام کا دل میں جو حصہ ہے
کسی گمنام ویرانی سے بھرتا جا رہا ہے
اور یہاں پر جو روایت سی ہے لمحوں کے نئے آباد کاروں کی
مرے احساس کی سطحی فصیلوں سے پھسلتی
گھر کی دہلیزوں کے اندر آ گری ہے۔
کہاں ہو تم
کتابِ جان میں میری
تمہارے نام کا رنگیں ورق
اب تو کئی دن سے بہت سادہ نظر آنے لگا ہے
اور شکستہ بھی بہت زیادہ نظر آنے لگا ہے
اور کناروں سے ذرا سا مڑ گیا ہے
پیاس کی شدت میں تڑپے
اور تڑپ کے مر گئے ہونٹوں کی سوکھی جلد کی مانند۔
کہاں ہو تم
تمہارے نام کا دل کے سنہرے دشت میں
تنہا تناور پیڑ تھا جو
اب بہت کملا گیا ہے
زرد شاخوں پر نہ پتّے ہیں نہ بیچارے تنے پرچھال زندہ ہے
فقط بیمار اور بچھڑا ہوا اک سال زندہ ہے
قریب المرگ دکھیا کی طرح تڑپے
نہ سو پائے نہ رو پائے
نہ دل سے داغ دھو پائے
نہ مل پائے کبھی خود سے نہ کھو پائے
کبھی ڈھونڈے
کبھی تھک ہار کے سوچے یہاں ہو تم وہاں ہو تم
کہاں ہو تم
کہاں ہو تم
فرحت عباس شاہ
(کتاب – دکھ بولتے ہیں)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *