باغ پھولوں سے بھرے ہی کب ہیں

باغ پھولوں سے بھرے ہی کب ہیں
احتیاطاً جنہیں ہم گنتے یں
اور کہتے ہیں کہ ہیں لاتعداد
خواب کے بوجھ سے ٹوٹی ہوئی شاخوں کے وجود
اپنی آبادی کے دھوکے میں ہنسے جاتے ہیں
بے سہارا ہیں شجر
بے سہارا ہے صبا
بے سہارا ہیں ثمر
بے سہارا ہے ہوا
آخری درد بہت پہلے سے آجاتا ہے
اس تجسس کی طرح سوکھے ہوئے پتے
الجھ پڑتے ہیں جس کی کوئی بنیاد نہ ہو
ہم بہاروں سے ڈسے جائیں گے اس روز کہ جب
ہاتھ پھولوں کے کفن چھو کے پگھل جائیں گے
اور اس روز بہت چہرے بدل جائیں گے
اور اس روز کئی لوگ نکل جائیں گے ویرانوں کو
ہم شہروں سے بہت سیکھا ہے
اب ہمیں صحرا بھلے لگتے ہیں
ہم نے جنگل کو ہرا دیکھا ہے ہر سپنے میں
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *