بڑا عام فہم تھا عجز میرے علوم کا

بڑا عام فہم تھا عجز میرے علوم کا
مرے عشق میں جو غرور تھا بڑا دور تھا
مرا اپنا آپ ڈگر ہے فکر کا مختلف
یہ ا لگ کہ کوئی چلے تو اس کو پتہ چلے
کسی لال رنگ کی شام میں ترے نام سے
میں شروع کروں گا دلوں کے قتل کی داستاں
مری انگلیوں کی خلش کے خوف سے ناگہاں
شبِ غم نے اپنی تمام راکھ سمیٹ لی
ترا درد بھی کوئی درد تھا کہ پڑا رہا
تری قتل گاہ کی ریت پر بڑی دیر تک
فرحت عباس شاہ
(کتاب – محبت گمشدہ میری)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *