لَوحِ رجز

لَوحِ رجز
دوام ! ژولیدہ سوہولیوں کی سرکشی رقص کر رہی ہے
جگر کو خوں کر کے محنتوں کی خود آگہی رقص کر رہی ہے
رجز کے آہنگ پر قبائل کی برہمی رقص کر رہی ہے
عظیم تاریخ کے الاؤ پر زندگی رقص کر رہی ہے
وہ سرفراز آگ جس کے جوہر جلیل تیشوں میں ڈھل چکے ہیں
وہ زولجلال آگ جس کی حدت سے کتنے پتھر پگھل چکے ہیں
اس آگ کے تابناک فرزند مشعلیں لے کے چل چکے ہیں
مصافِ تاریخ میں اندھیروں کے اہرمن رخ بدل چکے ہیں
درخش وتابش کی بیرقیں کوندھ اٹھی ہیں یخ بستہ ظلمتوں میں
حیات شعلے پہن کہ نکلی ہے زمہریری مسافتوں میں
جواں قبیلوں کے گلّہ بانوں کی آگ آج اپنی حمد خواں ہے
جبالِ حورب کی جھاڑیوں کا وہ رمز اب کہاں ہے
عظیم تاریخ کے سلاؤ پر زندگی رقص کر رہی ہے
مگر مرے لوگ منجمد رات کے ستاروں کو پوجتے ہیں
عظیم سورج پہ طنز کرتے ہیں اور شراروں کو پوجتے ہیں
یہ ہیکلِ فتنہ و ہلاکت کے کہنہ کاروں کو پوجتے ہیں
یہ اپنے زخموں پہ لوٹتے ہیں اور ان کے واروں کو پوجتے ہیں
میں اک قبیلے کو دیکھتا ہوں
میں دیکھتا ہوں کہ اُن کا احساس مر چکا ہے
حیات کا شعلہ گرامی نژاد اُن میں ٹھٹھر چکا ہے
ہلاکتوں کا وہ سیلِ قاہر جو کتنی نسلوں کو چَر چکا ہے
جواب دو ! کیا وہ سیلِ قاہر تمہارے سر سے گزر چکا ہے
حیات اک سیلِ گاہِ قوت ہے اور تم سیل گاہ میں ہو
وہ خود پناہیں نہ پا سکیں گے، تم آج جن کی پناہ میں ہو
جون ایلیا
(راموز)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *