بے سبب آرزوئے خاک کی ویرانی سہو

بے سبب آرزوئے خاک کی ویرانی سہو
کچھ نہ کہو
اور ہمیشہ اسی بے شکل سی دیوار سے لگ کر
یونہی چپ چاپ رہو
کس طرح کا ہے یہ جیون اپنا؟
آرزوئے خاک بھی کیا صورتِ ناکافی ہے
جیسے بربادی کے انجام کااحساس یا
انجام کی بربادی سے آگاہی کوئی
ہاتھ میں شیشہ لیے پھرتی ہے آئینہ سا
ہم بہت کرب میں رہتے ہیں یہاں
نہ کوئی وعدہ، نہ پیغام کی عزت
نہ تقدس،نہ محبت، نہ وفا
زندگی روز کی مزدوری کی اجرت کی طرح
بے قراری پہ کوئی برف گری
درد اور فکر کی منڈیر سے اک حرف گرا
الف کا حرف گرا جیسے کوئی ظرف گرا
ہم جسے روح کی پلکوں سے سنبھالے ہوئی پھرتے ہیں یہاں
لوگ انبوہ گرا بیٹھے ہیں
پھر بھی اک صدمہ ہمیں خوار کیے پھرتا ہے
یہ جو ہم چلتے ہوئے بیٹھ گئے
یہ جو ہم بیٹھے ہوئے لیٹ گئے
یہ جو ہم لیٹے ہوئے موت کی دہلیزکے سائے کی طرف تکتے ہیں
بے سبب آرزوئے خاک کی ویرانی ہے
کوئی ٹھٹھرائی ہوئی زرد وریدوں کی بیابانی ہے
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *