پرچھائیاں

پرچھائیاں
یادوں کی کتنی پرچھائیاں ہو سکتی ہیں
روح کے پردوں پر ہنستی گاتی
اور لہرا لہرا کر ناچتی ہوئی پرچھائیاں
منہ بسورتی کٹ کٹ کرتی پرچھائیاں
مضمحل، تھکی ہوئی، مست اور اداس پرچھائیاں
پژمردہ اور سوگوار
اور زارو قطار روتی ہوئی
غصے سے بھری ہوئی
چیختی چلاتی پرچھائیاں
یادوں کی بہت ساری پرچھائیاں ہو سکتی ہیں
جو میں نے ایک ایک کر کے بتائی ہیں
میری روح پر تمہاری یادوں کی بہت ساری پرچھائیاں
باری باری بیت گئی ہیں
اور اب بس مری ہوئی پرچھائیوں سے پہلے
کچھ گم سم اور چپ چاپ
اور بیمار پرچھائیاں رہ گئی ہیں
روح کے پردوں کو کسی غمزدہ دیمک کی طرح چاٹتی ہوئی
اور سلگا سلگا کے راکھ کرتی ہوئی
فرحت عباس شاہ
(کتاب – اداس شامیں اجاڑ رستے)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *