تری بھول ہے

تری بھول ہے
بڑی دور دور تلک فضاؤں میں دھول ہے
مرے بد نصیب سنبھل کے آ
تری بھول ہے کہ یہ راستے ترے پاؤں چاٹ نہ جائیں گے
تری بھول ہے کہ یہ زندگی کوئی پھول ہے جو کھلا نہیں
کبھی کھل اٹھے گا گلاب سا، کسی رنگ و نور کے خواب سا
تری بھول ہے
مرے بدنصیب وہ شہر دیکھ، وہ راہ راہ کے دانت دانت میں زہر دیکھ
وہی صبح دیکھ، وہ شام دیکھ، وہ رات دیکھ، وہ ذات ذات
میں مات مات کی لہر دیکھ، وہ سرخ رنگ کے پہر دیکھ،
وہ قہر دیکھ جو پھر پھرا کے اتر رہا ہے سکول پر
تری بھول ہے
تو ملول ہے کہ تجھے کتابوں پہ، تختیوں پہ، قلم دوات پہ سختیوں
کے نصاب گرتے دکھائی بھی نہیں دے رہے
تجھے لفظ اپنی صفائی بھی نہیں دے رہے
تجھے خواب تجھ سے رہائی بھی نہیں دے رہے
مرے بدنصیب سنبھل کے آ
یہ جو دھول ہے یہ جو پھول ہے یہ عذاب ہے
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *