تم عجب ہو

تم عجب ہو
تم عجب ہو مری چاہت کے نصیبوں کی طرح
منسلک غم کے تسلسل کی گنہگاری سے
بے قراری کی کوئی شکل اگر ہوتی تو وہ تم ہوتے
یا کہ بس میں ہوتا
تم عجب ہو مری آنکھوں کی طرح
اپنی ویرانی سے باہر کی بیابانی کو تکتی ہوئی
اور بھیگی ہوئی
جانے کس خدشے میں گم، سوچ میں کھوئی ہوئی
کچھ سوچ کے گھبرائی ہوئی
تم عجب ہو
مرے شعروں کی طرح
رات کے جاگے ہوئے
دھوپ میں کملائے ہوئے
ہجر کی راہ گزاروں کی طرح
بل میں بل کھائے ہوئے
دور تک چھائی ہوئی
زرد گھٹاؤں کی طرح
تم عجب ہو مرے خوابوں کی طرح
عمر سے اجڑے ہوئے بکھرے ہوئے، ترسے ہوئے
تم عجب ہو مرے نینوں کی طرح
برسے ہوئے، برسے ہوئے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – کہاں ہو تم)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *