تم ہوئے اور ہم کہ بس

تم ہوئے اور ہم کہ بس
آج تو موسم کہ بس
ایسی آمیزش ہوئی
یوں ہوئے باہم کہ بس
مسکرا اٹھتی تھی وہ
اس طرح یکدم کہ بس
کپکپاہٹ روح کی
دل کا زیر و بم کہ بس
دل کہ تھا ٹھہرا ہوا
آنکھ تھی پرنم کہ بس
انتہا پر تھی خوشی
جیسے کوئی غم کہ بس
زندگی کا درد سے
اس سے میرا رابطہ
اتنا تھا کم کم کہ بس
ایسا ہے سنگم کہ بس
اس نے مڑ کر کچھ کہا
اس قدر مدھم کہ بس
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *