چاروں جانب پھیل گیا ہے
اک رستہ اک غم
جیسے کوئی دھیرے دھیرے
کھینچ رہا ہو دم
چاروں جانب۔۔۔
جہاں بھی جاؤ ں ساتھ میں تیرا رستہ بھی آجائے
جیسے ناری گت لہرائے یا ناگن بل کھائے
یوں بھی نہ کوئی دل والوں کے تن من میں بس جائے
چاروں جانب۔۔۔
دل سے تیرے دروازے تک تیری آس بچھی ہے
جہاں جہاں تک نظریں جائیں پیلی گھاس بچھی ہے
ساتھ میں اک رستہ ہے جس پر تیری باس بچھی ہے
چاروں جانب پھیل گیا ہے۔۔۔
آنکھوں میں کچھ آن بسا ہے مجھ کو ایسا لاگے
یا کوئی خواہش بل کھائے یا کوئی سپنا جاگے
یا تیرا رستہ ہے جاناں دل کے آگے آگے
چاروں جانب پھیل گیا ہے
اک رستہ اک غم
جیسے کوئی دھیرے دھیرے
کھینچ رہا ہو دم
فرحت عباس شاہ