آ لگا جنگل در و دیوار

آ لگا جنگل در و دیوار سے

اپنے آپ کو ایک شعلہ بیاں مقرر سے
بمشکل بچاتے ہوئے
لوگوں اور جھانسوں کی بھیڑ سے نکل تو آیا
لیکن باہر آ کر پتہ چلا
کہ میرے پاؤں میری ٹانگوں کے ساتھ نہیں ہیں
میں واپس پلٹا
اور خاصی کوشش کے بعد صرف جوتے تلاش کر سکا
سڑک پار کرتے ہوئے
ایک تیز رفتار گاڑی کی زد میں آیا تو بچ نہ سکا
گاڑی مجھے اچھال کر دور پھینک گئی
اور جاتے جاتے میری ایک ٹانگ اپنے ساتھ لے گئی
میرے جوتے وہیں پڑے رہ گئے
اور مجھے ہسپتال پہنچا دیا گیا
جہاں میری آنکھ
میری بے ہوشی کے عالم میں عطیے کے طور پہ لے لی گئی
کچھ دنوں بعد ہسپتال سے فارغ ہو کر نکلا
تو ایک جیب کترے سے ٹکرا گیا
جو جیب کو بالکل خالی پا کر
میری انگلیاں ہی کاٹ کر لے گیا
میں رپورٹ درج کروانے گیا تو
محافظوں نے کہا
کہ حالات ایسے نہیں کہ کوئی بھی
اتنے صحیح سلامت بازو کھلے عام ساتھ لئے پھرے
اور پھر انہوں نے احتیاطاً میرے بازو جسم سے کاٹ کر اپنے مال خانے میں رکھ لئے
وہاں سے چلا اور بازار میں آیا
تو جگہ جگہ اشتہاروں اور بینروں سے دیواریں بھری نظر آئیں
جن میں ایمان والوں سے
ملک، قوم اور مذہب کے نام پر
سروں اور گردنوں کی قربانی پیش کرنے کی اپیلیں کی گئی تھیں
اس سے پہلے کہ میں کچھ سمجھتا یا سوچتا
عقیدوں اور نظریات کا ایک اژدہام مجھ پر حملہ آور ہو چکا تھا
جو بالآ خر میرا سر میرے تن سے جدا کر کے لے گیا
میں لڑکھڑایا اور زمین پر آ رہا
دو تین پتھریلی ایڑیاں مجھے کچلتے ہوئے گزر گئیں
ابھی کچھ زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی کہ
دو یخ برفیلے ہاتھوں نے اٹھایا میرا کٹا پھٹا اور ٹوٹا پھوٹا بدن
اور ہاتھ سے دھکیلے جانے والے ایک چھوٹے سے لکڑی کے چھکڑے میں لٹا دیا
چھکڑا ہلا اور ایک سمت دھکیلا جانے لگا
ساتھ ہی ایک آواز میرے کانوں میں پڑی
’’ دے غریب کو اللہ تجھے ساری دنیا کی بادشاہت دے‘‘
دے غریب کو اللہ تجھے زندگی میں کوئی دکھ نہ دے‘‘
کچھ ہی دیر بعد
چھوٹے چھوٹے سِکّے میرے شکستہ جسم پہ گرنے لگے

فرحت عباس شاہ

Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *