جیسے اک دوجے سے غم ملتے ہیں
ہم کہ جس راہ پہ بھی چل دیکھیں
سلسلہ ہائے ستم ملتے ہیں
آخرش ماجرا کیا ہے کہ سدا
لے کے سب دیدہ نم ملتے ہیں
ہم بھی نایاب رہے ہونگے مگر
آپ جیسے بھی تو کم ملتے ہیں
آپ وہ موڑ ہیں اس دنیا میں
جس جگہ آ کے کرم ملتے ہیں
تیز آندھی میں طنابوں کی طرح
کب یہ اکھڑے ہوئے دم ملتے ہیں
اب فقط راہ مصیبت پہ مرے
اس کے قدموں سے قدم ملتے ہیں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – اور تم آؤ)