شفق جو روئے سحر پر گلال ملنے لگی

شفق جو روئے سحر پر گلال ملنے لگی
یہ بستیوں کی فضا کیوں دھواں اُگلنے لگی
اسی لیے تو ہوا رو پڑی درختوں میں
ابھی میں کِھل نہ سکا تھا کہ رُت بدلنے لگی
اُتر کے نائو سے بھی کب سفر تمام ہوا
زمیں پہ پائوں دھرا تو زمین چلنے لگی
کسی کا جسم اگر چھو لیا خیال میں بھی
تو پور پور مری، مثلِ شمع جلنے لگی
میں ناپتا چلا قدموں سے اپنے سائے کو
کبھی جو دشتِ مسافت میں دھوپ ڈھلنے لگی
مری نگاہ میں خواہش کا شائبہ بھی نہ تھا
یہ برف سی ترے چہرے پہ کیوں پگھلنے لگی
کہیں پڑا نہ ہو پَرتُو بہارِ رفتہ کا
یہ سبز بُوند سی پلکوں پہ کیا مچلنے لگی
نہ جانے کیا کہا اس نے بہت ہی آہستہ
فضا کی ٹھہری ہوئی سانس پھر سے چلنے لگی
جو دل کا زہر تھا کاغذ پہ سب بکھیر دیا
پھر اپنے آپ طبیعت مری سنبھلنے لگی
جہاں شجر پہ لگا تھا تبر کا زخم شکیب
وہیں پہ دیکھ لے ، کونپل نئی نکلنے لگی
شکیب جلالی
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *