تم جب سے گئے چھین کے ہر بات سہانی

تم جب سے گئے چھین کے ہر بات سہانی
اب شام رہی ہے نہ کوئی رات سہانی
آئے نہ کبھی لوٹ کے بچھڑے ہوئے موسم
آئی نہ کبھی لوٹ کے برسات سہانی
تم پچھلے مسائل کا اگر ذکر نہ چھیڑو
ممکن ہے کہ ہوجائے ملاقات سہانی
تاروں سے بھرا نیل گگن، موسمِ گریہ
آنکھوں میں مرے اشکوں کی بارات سہانی
یہ وقت سہانا ہے نہ موسم نہ سماں ہے
سب کچھ ہے، اگر صرف ہے اک ذات سہانی
فرحت عباس شاہ
(کتاب – اداس اداس)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *