چاہے تو جیسی ادا سے نکلا

چاہے تو جیسی ادا سے نکلا
مجھ کو کیا میری بلا سے نکلا
اک لکیر اور مِٹی ہاتھوں سے
ایک سیّارہ خلا سے نکلا
کب بچا موت کے حملے سے کوئی
کب کوئی شہرِ قضا سے نکلا
گھر گیا ایک سے اک وحشت میں
جب سے میں تیری دعا سے نکلا
بھر گیا دل مرا پچھتاوؤں سے
اشک جو چشمِ خفا سے نکلا
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *