درد کی چھتری تلے

درد کی چھتری تلے
باقی عمر تمام
کون جانے
درد کی کس چھتری تلے دل نے پناہ ڈھونڈی ہے
آنکھیں برسانے سے کیا فائدہ
چھتریاں ہوتی ہی بارشیں ناکام بنانے کے لیے ہیں
جو میرے اندر گرے تھے
یہ اور بات ہے دل کی جلن نہ بجھا سکے
وہ چھتری جس کے نیچے ہم دونوں نے اپنی اپنی بارش سے بچنا چاہا
اور ناکام رہے
گھر آ کے مجھے یاد آیا
میں اپنے ہاتھ تو تمہیں دے آیا ہوں
جن سے تمہارا ہاتھ تھاما تھا
میرے بازوؤں سے جڑا گوشت
لوگوں کو میرے ہاتھ ہی لگا
اور تبدیلی میرے سوا کسی نے محسوس نہ کی
اگلے دن میں اکیلا اس چھتری تلے پھر جا بیٹھا
وہاں میرے ہاتھ نہیں تھے
لیکن ان کی یاد پڑی تھی
اور تمہاری خوشبو
اور تمہارا احساس
اس دن چھتری بہت بھیگی
میرے رخساروں اور میرے دامن کی طرح
واپس لوٹتے ہوئے میں نے سوچا
آنکھیں برسانے سے کیا فائدہ
کون جانے
درد کی کس چھتری تلے دل نے پناہ ڈھونڈی ہے
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *