دکھ بھی کتنا تہہ دار ہوتا ہے

دکھ بھی کتنا تہہ دار ہوتا ہے
صد شکر کہ میری یادداشت گم ہو چکی ہے
میرے لیے کسی صدا کی بازگشت ممکن نہیں
تحفظ کبھی کبھی خود بخود ہی ہو جاتا ہے
تم وہی ہونا جو مجھے یاد نہیں رہے
سنا ہے میری یادداشت گم ہونے سے پہلے مجھے بس تم ہی یاد رہ گئے تھے
دکھ بھی کتنا تہہ دار ہوتا ہے
کبھی یادداشت کا دکھ
کبھی یادداشت گم ہو جانے کا
کاش کوئی ایسی فراموشی ہوتی
جو سارے کے سارے دکھ بھلا دیتی
فراموشی کا دکھ بھی
فرحت عباس شاہ
(کتاب – خیال سور ہے ہو تم)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *