دل گرفتہ کسی ماحول میں تم یاد آئے

دل گرفتہ کسی ماحول میں تم یاد آئے
یہ بھی ہو سکتا ہے یاد آنے سے پھیلا ہو ملال
پھر بھی ہم مہر بہ لب۔۔۔۔
صورتِ حال پہ رونے کا ہمیں وقت کہاں
اتنی دقت ہے کہ کچھ بولیں تو الفاظ میں گرہیں پڑ جائیں
اتنے بے ذات ہوئے ہیں کہ کوئی کیڑا ہمیں
ایک لمحے میں بھی کھا سکتا ہے
زرد پتوں کی قسم
یاد سرسبز نہیں ہوتی کہ چاہے تو شجر ہی بن جائے
سبز پیڑوں کو جلانے کے لیے ہوتی ہے
بے سروپا کسی خواہش کے مداوے میں تمہیں یاد کیا
اور ہوئے اور بھی زیادہ مایوس
گھاس میں گھر بھی بنا رکھے ہیں فطرت کے کئی تحفوں نے
جس نے مخلوق کو مخلوق میں دی جائے پناہ
ہم اسی کے لیے رہتے ہیں اداس
ہم شجر زاد نہیں تھے کہ تری راہ میں اگ آتےبڑی سرعت سے
ہم تو ویرانے تھے
اور ہی طرح سے دی آپ خدا نے ہمیں طاقت کہ سدا
دل گرفتہ ہی رہیں اور نہ کچھ منہ سے کہیں
اک طرف ہم ہیں زمیں پر مغرور
اک طرف گھاس کی مخلوق بڑی بے مایہ
پاؤں پر ڈس لے تو انسان گیا
پھر بھی ہم مہر بہ لب
اور کچھ بھی نہ کریں چاہے مگر
ہم تجھے یاد بہت کرتے ہیں
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *