دن نکلتا نہیں

دن نکلتا نہیں
سانس کی آریاں رات کی دھار سے کاٹتی جا رہی ہیں بدن
دن نکلتا نہیں
سانس کی آریاں غیر محسوس ہو جائیں کچھ دیر کو ۔۔۔ کاش
اور ذات کے اُس بیابان کی سسکیاں بھی سنائی نہ دیں
جس میں ٹوٹی ہوئی جھاڑیوں اور قبروں پہ خاموشیاں بین کرتی ہیں
اور وقت ٹلتا نہیں
کان پھٹنے لگے ہیں
کبھی کوئی بہکی ہوئی یاد بس اک ذرا دیر کو چپ ہوئی تو کوئی اور دکھ رو دیا
جنگھٹوں میں بھی تنہائی کا خوف جاتا نہیں
اور کچھ اس قدر زور سے چیختا ہے
کہ دل کا پرندہ لرزتے لرزتے سنبھلتا نہیں
ہُوک اٹھتی ہے اور پھیل جاتی ہے اک ایک شریان میں
ہم کہاں تک سماعت پہ جھوٹے دلاسوں کی کچی ہتھیلی جمائیں
کہاں تک سنیں بے بسی سے رندھی جان کی ہچکیاں
ہم کہاں تک سُنیں
ہم کو اس بے یقینی کے قیدی ہوئے ایک مدت ہوئی
ایک مدت سے دل تو مچلتا ہے موسم بدلتا نہیں
ایسے امکان میں
یہ مسلسل اذیت کہاں تک چُنیں
درد ڈھلتا نہیں
درد ڈھلتا نہیں، درد ڈھلتا نہیں
سانس کی آرایاں رات کی دھار سے کاٹتی جا رہی ہیں بدن
دن نکلتا نہیں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – دکھ بولتے ہیں)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *