ڈال چکی ہے چُپ کر کے تقدیر ہمارے پیروں میں

ڈال چکی ہے چُپ کر کے تقدیر ہمارے پیروں میں
اک مضبوط اور انجانی زنجیر ہمارے پیروں میں
کیا بتلائیں کیسا دکھ ہے شہر بدر ہونے کا دکھ
الجھ رہی ہے بستی کی تصویر ہمارے پیروں میں
گو ہم خالی ہاتھ ہیں لیکن ہر گز خالی روح نہیں
بکھر بکھر جاتی ہے سو جا گیر ہمارے پیروں میں
راہیں رو دیتی ہیں اکثر پتھر رو رو دیتے ہیں
جانے کیا ہے درد بھری تاثیر ہمارے پیروں میں
ہم آزاد منش دیوانے آخر یوں محصور ہوئے
سسک رہی ہے اک زخمی تحریر ہمارے پیروں میں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – ہم جیسے آوارہ دل)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *