راکھ اڑتی ہے اور آنکھوں میں جا پڑتی ہے

راکھ اڑتی ہے اور آنکھوں میں جا پڑتی ہے
میں نے جب بھی بیماری کاٹی ہے
بے وجہ نہیں کاٹی
کوئی نہ کوئی باعث بنتا رہا ہے
کسی نہ کسی نے کچھ نہ کچھ حصہ ضرور لیا ہے
بیماری بھی ایک ریاضت ہوتی ہے
اگر گزر جائے
تو پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط کر دیتی ہے
چاہے دل کی ہو
چاہے دماغ کی
اور وہ جو باعث بنتے ہیں، بہت چھوٹے رہ جاتے ہیں
بڑے حقیر
اور کبھی کبھی تو
سرے سے غائب ہوجاتے ہیں
اپنی اپنی سیہ نیتوں سمیت
اور اپنے اپنے تاریک ارادوں سمیت
اور اگر بیماری نہ گزرے تو۔۔۔۔
تو پھر راکھ اڑتی ہے، پوری آبادی میں
ہمت اور حوصلے کی راکھ
صبر اور برداشت کی راکھ
راکھ اڑتی ہے
اور لوگوں کی آنکھوں میں جا جا پڑتی ہے
ان کی آنکھوں میں بھی
جو باعث نہیں بنتے
اور ان کی آنکھوں میں بھی، جو باعث بنتے ہیں
چاہے دوست ہوں یا دشمن
رشتہ دار ہوں یا غیر
اپنے ہوں یا بیگانے
آشنا ہوں یا اجنبی
سب کی آنکھوں میں جا جا پڑتی ہے
چاہے کوئی بتائے، چاہے نہ بتائے
راکھ کی اپنی ایک الگ تاثیر ہوتی ہے
یہ جہاں اڑتی ہے
جہاں جہاں پڑتی ہے
اثر ضرور دکھاتی ہے
جیسے ایک بار اڑی تھی
تو سرابی کے سائبان پر جا پڑی
راکھ سرابی کے سائبان پر جا پڑی
اور وہ بے سائبان ہو گئی
بے چھت
بے آسمان
بے سایا
وہ پہلی مرتبہ اجڑی
اور بہے اجڑی
پہلی مرتبہ اس لیے
کہ یہ جو شہر ہوتے ہیں نا
اور یہ جو بستیاں ہوتی ہیں
کئی کئی مرتبہ اجڑتی
اور کئی کئی مرتبہ آباد ہوتی رہتی ہیں
وہ اس دن بہت روئی
دیواریں پکڑ پکڑ کے روئی
سر پہ بازو رکھ رکھ کے روئی
دلاسہ دینے والوں کے کندھوں سے لگ لگ کے روئی
شفقت کرنے والوں کے دامنوں میں سر رکھ رکھ کے روئی
رو رو کے سوتی رہی
جاگ جاگ کے روتی رہی
کمزور ہوگئی
نحیف و نزار،
بیمار،
لاچار،
ڈھئے سی گئی
میں اس اجڑی ہوئی بستی کے کنارے
جلی ہوئی ریت پر بیٹھا
واحد سوگوار تھا، جو رویا نہیں
اور جو دلاسہ دینے والوں کے ہجوم میں
سب سے زیادہ دکھی تھا
لیکن رویا نہیں، آج مجھے رونا بھی نہیں تھا
بلکہ اس کو
اس اجڑی ہوئی بستی کو
اس برباد شہر کو سہارا دینا تھا
اسے تھامنا تھا
اسے حوصلہ دیتا تھا
اسے پھر سے آباد ہونے میں مدد دینا تھی
سب کچھ بھول بھال کے
فراموش کر کے
سرابی بے سائبان سرابی
غیر محفظ سرابی
اور چالاک لومڑوں
اور خونخوار بھیڑوں کا شہر
غول کے غول
اور اکیلی سرابی
نازک، کمزور اور بے آسرا
بے آسرا سرابی اور طاقتور درندے
پورا شہر کا شہر،
پورا جنگل کا جنگل
میں نے اپنے بیمار وجود کو دیکھا
پتلی پتلی نازک انگلیاں
چھوٹے چھوٹے نفیس پاروں
آدھے صاف
آدھے خاک آلود
ہاتھ اور بازو
جیسے چھوٹی چھوٹی معصوم سی شاخیں
دھان پان سا،
کانچ کا بنا دبلا پتلا وجود
جیسے تیز ہوا سے بھی ٹوٹ جائے
نازک سی جان
اور طاقتور درندوں کا شہر
طاقتور درندوں کا شہر
اور بے چھت سرابی
سرابی۔۔۔۔۔سرابی۔۔۔۔۔۔سرابی۔۔۔۔۔۔
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *