روز بیماری دل شور مچاتی ہے کہ الزام دھرو

روز بیماری دل شور مچاتی ہے کہ الزام دھرو
اپنے ہر جرم کا اوروں پہ تم الزام دھرو
چلچلاتے ہوئے مغرور یہ دن
ان کے کندھوں پہ کوئی شام دھرو
وقت سے پہلے کسی کام کا انجام دھرو
ہر وضاحت کی چکا چوند کے سر پر کوئی تاریک سا ابہام دھرو
یہ جو پاکیزہ بنی پھرتی ہیں راتیں خود سے
ان کے کردار پہ میلا سا کوئی نام دھرو
یہ جو بیماری دل ہے
یہ کہیں بیٹھنے دیتی نہیں صدیوں کے گنہگاروں کو
ہم مسلمان نہیں ہیں کہ پلٹ جائیں کسی توبہ کی معصوم پنہ گاہوں میں
ہم تو کافر بھی نہیں ہیں کہ کسی بت کو ہی کچھ مان لیں
سچائی سے
ہم تو کچھ ٹھیک سے منکر بھی نہیں ہیں
کہ کسی کام میں پورے اتریں
ہم تو ایسے بھی نہیں ہیں کہ کہیں جراتِ ناکام دھرو
جس جگہ حیف ہے ویرانی کی ویرانی کا
ہم تو یہ بھی نہیں کہتے کہ در و بام دھرو
وقت سے پہلے جنم
وقت سے پہلے فنا
وقت کے بعد قدم
وقت کے بعد تسلی کا کوئی حرفِ دعا
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *