سر زمینیں

سر زمینیں
بے سرزمینیں
امریکہ مت جانا
تہذیب یافتہ جنگل
مہذب درندے
ذہین مشینیں
مریض اخلاق
بد خوشی
منافق دانش
امریکہ مت جانا
میں نے کچھ راتیں
بہت پہلے امریکہ کے ادھر ادھر گزاری تھیں
مظلوموں کے خون
اور کمزوریوں کی لاشوں میں
میں نے کچھ راتیں 
روس میں گزاریں
ٹوٹتی بکھرتی کٹتی مرتی روحوں میں
ریزہ ریزہ ہوتے جسموں میں
میں نے کچھ راتیں افغانستان میں گزاریں
آگ اور خون کے دہرے کھیل میں
دو
لڑاکے جنگلی بھینسوں کے سینگوں میں
الجھتی اکھڑتی اور مسلی جاتی جھاڑیوں اور ننھے پودوں میں
میں نے کچھ راتیں
عراق اور ایران میں گزاریں
اپنے ہاتھوں اجڑے ہوئے گھروں میں
اپنی آگ سے جلے ہوئے گلستانوں میں
اپنے مردوں سے بھرے ہوئے قبرستانوں میں
میں نے کچھ راتیں خلیج میں گزاریں
ایک دوسرے کا خون چوستے بہاتے اڑاتے بھائیوں میں
راکھ ہوتے ہوئے خزانوں میں
میں نے کچھ راتیں گزاریں
مقدس سرزمین پر
ناپاک فوجی بوٹوں تلے روندی ہوئی ریت میں
شراب کی خالی بوتلوں اور گندگی میں
لٹی ہوئی دولتوں اور نعمتوں میں
میں نے کچھ راتیں بوسنیا میں بھی گزاریں
دیواریں تکتے قیدیوں
اور راستے تکتے معذوروں میں
ہوس کی بھینٹ چڑھا دی گئیں عورتوں
اور بھوک کی بھینٹ چڑھا دیئے گئے بچوں کی آنکھوں میں
میں نے کچھ راتیں ویت نام میں بھی گزاریں اور ہیرو شیما میں بھی
اور ایسی بہت سی اور بھی جگہوں پر
تمہیں پتہ ہے میں آج کل پاکستان میں رہتا ہوں
اور یہاں بھی راتیں ہی گزار رہا ہوں
لیکن میں دن گزارنا چاہتا ہوں
اور دن میں وہیں رہوں گا
جہاں امریکہ نہیں ہو گا
تم امریکہ مت جانا
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *