سفر نصیب ہے اور ہے وفا کے رستے میں

سفر نصیب ہے اور ہے وفا کے رستے میں
بھٹک کے آہی نہ جائے سدا کے رستے میں
اسے خبر ہے کہ گزری تو اُس کو چھیڑے گی
وہ آ کے بیٹھا ہے بادِ صبا کے رستے میں
تمہارے بعد اگر ہم بھی ہو گئے تو کیا
ہوئے ہیں خاک ہزاروں انا کے رستے میں
عجیب شخص ہے خوشبو بھرے کٹوروں کو
بچھا کے لوٹ گیا ہے ہوا کے رستے میں
بہت اکیلی بہت بے سہارا و بے بس
کھڑی ہوئی ہے محبت خدا کے رستے میں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – روز ہوں گی ملاقاتیں اے دل)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *