سکھ بھی کبھی کبھی ہی اچھے لگتے ہیں

سکھ بھی کبھی کبھی ہی اچھے لگتے ہیں
پیچھے رہ جانے کا دکھ بھی ہوتا ہے
آگے آجانے کا بھی
دور نکل آنے کا دکھ بھی ہوتا ہے
اور اکٹھے رہنے سے بھی
خوشیاں زیادہ دیر نہیں ٹھہرا کرتیں
جانے کیسے سپنے کیسے دل ہوں گے
جن کے دروازوں پر لٹکے پھول سدا مُسکاتے ہیں
اور صحنوں میں اک سکھ سا لہراتا ہے
لیکن
شاید سکھ لہرانے کا دکھ بھی تو ہوتا ہے
اگر ہمیشہ سکھ لہرائے
اور کوئی موسم نا آئے
چاہے کوئی آگے ہو
پیچھے رہ جائے
یا پھر دور نکل جائے
دکھوں سے کبھی نا کبھی مسرت پھوٹتی ہے
اور پھر سکھ بھی۔۔۔۔۔
سکھ بھی کبھی کبھی ہی اچھے لگتے ہیں
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *