شام ڈھل جائے گی
اک ہجر کی ویران تہوں کے نیچے
اور کوئی سنگ اٹھانے کو نہیں آئے گا
دل کی آواز کے سینے پہ پڑا سنگ گراں
شام ڈھل جائے گی
یادوں کی بیابانی میں
آج اس دشت کے ٹیلوں پہ کوئی رویا ہے
راہ تکتا ہوا مدت سے کوئی، سویا ہوا
شام ڈھل جائے گی معمول مطابق لیکن
دکھ کہاں ہوتا ہے ڈھلنے کے لیے
ہجر کا دکھ بھلا کب ڈھلتا ہے
ایک دن آئے گا جب راہ پہ بیٹھے بیٹھے
عمر کی ترسی ہوئی جان پگھل جائے گی
فرحت عباس شاہ