شبنم اور پتھر

شبنم اور پتھر
اُس نے عہد کیا
اور میرے راستوں میں
اک عمر برہنہ پا چلتی رہی
پھر ایک عمر اُس نے
میرے قدموں کے نشانوں پر قدم رکھ رکھ کے سفر کیا
ایک دفعہ میں تند و تیز اور یخ بستہ ہوا میں گھر سے نکلا
تو ہوا اور میرے درمیان
آہنی فصیل کی طرح تن کر کھڑی ہوگئی
اور میں جب تک باہر رہا
اُس نے ہوا کے ہر ریلے کو اپنے کمزور سینے پر جھیلا
پھر اس دن کے بعد
وہ مجھے کبھی نظر نہ آئی
کافی دنوں بعد مجھے اس کی ایک سہیلی ملی
جس نے میرے اُس کے بارے میں استفسار پر بتایا
کہ وہ بہت بیمار ہے
کسی نامعلوم مرض کے باعث اس کی روح میں سوراخ ہو گئے ہیں
اور اب تو یہ عالم ہے کہ جیسے بس چند گھڑیوں کی مہمان ہو
میں نے کسی قدر تعجب سے اُس کی بات سُنی
افسوس سے سر ہلایا اور ’’ بیچاری‘‘ کہہ کر چل پڑا
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *