معبد عشق شکستہ ہے بڑی مدت سے
اور جنوں خیزی اظہار کی خو زخمی ہے
جستجو ہو گئی تقسیم سفر گرد ہوا
شہر کے راستے جنگل کو نکل جاتے ہیں
اور جنگل کے کسی صحرا میں
جرم شریانوں میں پلتا ہے لہو پی پی کر
اور اگلتا ہے سیاہی من میں
ہم الجھتے ہیں بس آئینوں سے
ہم کہ خود اپنی اذیت کے شکار
نفرتیں دل میں لیے پھرتے ہیں سائیوں کے لیے
کھڑکیاں بند پڑی رہتی ہیں
اور دیواریں بہت اونچی ہیں
ریگذاروں کی ضرورت ہی نہیں
دھوپ اندر ہی سے اگ آتی ہے کانٹے لے کر
دکھ لیے پھرتے ہیں ٹوٹے ہوئے بت بغلوں میں
ڈھونڈتے پھرتے ہیں اس کو کہ جسے جا کے کہیں
معبد عشق شکستہ ہے بڑی مدت سے
اور جنوں خیزی اظہار کی خو زخمی ہے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – خیال سور ہے ہو تم)