قدم قدم پہ نئے سے نئے حصار میں تھا

قدم قدم پہ نئے سے نئے حصار میں تھا
دلِ امیر محبت کے کاروبار میں تھا
نگاہ لمحہ بہ لمحہ لرز لرز جاتی
عجیب رعب ترے حسنِ بے قرار میں تھا
تمام عمر بتا دی ترے تعاقب میں
پلٹ کے دیکھا تو اک شہر انتظار میں تھا
ترا خیال بھی جھلسا ہے آتش غم سے
یہ راہ رو بھی مرے ساتھ رہگذار میں تھا
مری بساط ہی کیا تھی مگر تمہارے لئے
کچھ اس سے زیادہ کیا جتنا اختیار میں تھا
فرحت عباس شاہ
(کتاب – سوال درد کا ہے)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *