کبھی اڑتے پھرتے سحاب میں اسے دیکھتے

کبھی اڑتے پھرتے سحاب میں اسے دیکھتے
کبھی کھلکھلاتے گلاب میں اسے دیکھتے
وہ جدید دور کا شخص تھا ہمیں عمر بھر
یہ خلش رہی کہ حجاب میں اسے دیکھتے
کسی دن جو اس کو نکال دیتے خیال سے
تو تمام شب کسی خواب میں اسے دیکھتے
جسے حرف عام سمجھ کے تم نے مٹا دیا
مری زندگی کی کتاب میں اسے دیکھتے
کچھ عجیب سی کوئی پیاس تھی سر دشتِ جاں
کہ قدم قدم پہ سراب میں اسے دیکھتے
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *