کتنی تنہائی ہے آبادی میں
لوگ زیادہ ہیں مگر شہر میں رونق ہی نہیں
بھیڑ کافی ہے تعلق کے بغیر
رات بیماری سے
دن وہم کی خواری سے بھرا رہتا ہے
راستے چپ کے تلذذ کی دکاں داری
سے سرشار نظر آتے ہیں
کتنے بے چین نشاں ہیں مرے چاروں جانب
شام، دوپہر، ستارے اور دل
خوف بے رنگ تسلط ہے عجب
خوف بے نام رفاقت ہے عجب
خوف منڈیروں پر آ بیٹھا ہے
گھورتا رہتا ہے گھر والوں کو
کتنی ویرانی ہے گھر کے اندر
کتنی بربادی ہے اس بستی میں
فرحت عباس شاہ