کسی کے ہجر کا پھر امتحان ٹوٹ پڑا

کسی کے ہجر کا پھر امتحان ٹوٹ پڑا
ہمارے دل پہ کوئی آسمان ٹوٹ پڑا
بس ایک لمحے کو کمزور پڑ گئے تھے ہم
اس ایک لمحے میں سارا جہان ٹوٹ پڑا
پھر اس کے بعد تھا اپنا نہ کوئی اور خیال
مرے دماغ پہ اس کا دھیان ٹوٹ پڑا
کبھی کبھی یہ بھی سننے میں آتا رہتا ہے
مکین سوئے ہوئے تھے مکان ٹوٹ پڑا
عجیب سے کوئی سائے مجھے ڈراتے ہیں
مرے یقین پہ جب سے گمان ٹوٹ پڑا
تمہارا روٹھ کے جانا بِنا کہے کچھ بھی
ہمیشہ ہم پہ اچانک ہی آن ٹوٹ پرا
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *