کوئی دیاہ رنگ کا شور ہے

کوئی دیاہ رنگ کا شور ہے
ابھی سیاہ رنگ کا شور روئے گا دیر تک
ابھی زرد رنگ خلش کراہے گی دور تک
مجھے یاد ہے
اسی خواب میں
اسی خوابِ عہدِ خفا کے سچے سراب میں
تری آنکھ میرے بدن میں جیسے دریچہ وار اتر گئی
میں نے دل سے پلکیں اٹھا کے دیکھا
تو ٹوٹ کے مرے چاروں سمت تری نگاہ بکھر گئی
مجھے دیکھنا پڑا روٹھ روٹھ کے دیکھنا پڑا ہر طرف
اسی سیاہ رنگ کے شور میں
اسی زرد رنگ کے شور میں
اسی زرد رنگ خلش کی کاٹ کے زور میں
مجھے اپنی آنکھ سڑک پہ مسلی ہوئی ملی
وہ جو تیری آنکھ کا سحر تھا
ابھی دور تھا
وہ جو نقشِ شیشہِ نور تھا
ابھی چُور تھا
میں سمجھ گیا
ابھی سیاہ رنگ کا شور روئے گا دیر تک
ابھی زرد رنگ خلش کراہے گی دُور تک
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *