محبت گرنے نہیں دیتی

محبت گرنے نہیں دیتی
اُس نے، اُسی صدیوں پرانی محبت والے لڑکے نے
اُسی دیواروں سے روٹھنے منانے کی باتیں کرنے والے
کنارا کنارا ٹوٹتے دل والے بچے نے
دیکھا
اور گھبرا کے اپنی ایڑیاں سمیٹ لیں
اور رُک رُک کے
ٹھہر ٹھہر کے چلنے لگا
ڈر ڈر کے کہ کہیں اُسکی اپنی ایڑی
کسی بے گناہ کے زخم
اور کسی مظلوم کے آنسو پر نہ جا پڑے
وہ چلنے لگا
قیمتی کپڑوں کی طرف
شفاف پیروں کی طرف
اپنے ہونے کی طرف
اور سرابی کی طرف
بہت کٹھن تھا ایسے چلنا بھی
قدم قدم پر نوکیلی کرچیاں بکھری تھیں
تیز دھار کانٹے تھے
اور ترچھے کونوں والے سنگریزے تھے
یا پھر سینے اور پیشانیاں تھیں
اس نے پہلا راستہ منتخب کیا
اور لہو لہو ہو گیا
لہو لہو ہو گیا
لیکن گرا نہیں
کہیں بیٹھا نہیں
گرتا بھی کیسے
محبت گرنے نہیں دیتی
اور نہ نفرت بیٹھنے دیتی ہے
کبھی بہت تھک جاتا
تو کسی اجاڑ رات کے دامن میں منہ چھپا کے رو پرتا
بہت روتا، بہت روتا،
اتنا، کہ رات بھیگ جاتی
اور پھر روتے روتے صدیاں بیت جاتیں
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *