آہ روکوں جانے والے کس طرح گھر کے ترے

آہ روکوں جانے والے کس طرح گھر کے ترے
گاڑ دیویں کاش مجھ کو بیچ میں در کے ترے
لالہ و گل کیوں نہ پھیکے اپنی آنکھوں میں لگیں
دیکھنے والے ہیں ہم تو رنگ احمر کے ترے
بے پرو بالی سے اب کے گو کہ بلبل تو ہے چپ
یاد ہیں سب کے تئیں وے چہچہے پر کے ترے
آج کا آیا تجھے کیا پاوے ہم حیران ہیں
ڈھونڈنے والے جو ہیں اے شوخ اکثر کے ترے
دیکھ اس کو حیف کھا کر سب مجھے کہنے لگے
وائے تو گر ہیں یہی اطوار دلبر کے ترے
تازہ تر ہوتے ہیں نو گل سے بھی اے نازک نہال
صبح اٹھتے ہیں بچھے جو پھول بستر کے ترے
مشک عنبر طبلہ طبلہ کیوں نہ ہو کیا کام ہے
ہم دماغ آشفتہ ہیں زلف معنبر کے ترے
جی میں وہ طاقت کہاں جو ہجر میں سنبھلے رہیں
اب ٹھہرتے ہی نہیں ہیں پاؤں ٹک سر کے ترے
داغ پیسے سے جو ہیں بلبل کے دل پر کس کے ہیں
یوں تو اے گل ہیں ہزاروں آشنا زر کے ترے
کوئی آب زندگی پیتا ہے یہ زہراب چھوڑ
خضر کو ہنستے ہیں سب مجروح خنجر کے ترے
نوح کا طوفاں ہمارے کب نظر چڑھتا ہے میرؔ
جوش ہم دیکھے ہیں کیا کیا دیدۂ تر کے ترے
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *