میں خدا نہیں

میں خدا نہیں
میں خدا ہوں اپنے حصار میں
بڑا بے زباں سا خدا
خدا کسی قبر کا
مجھے جس پہ رونا ہے بیٹھ کے بڑی دیر تک
بڑی دیر تک میں خدا ہوں اپنے خیال میں
مجھے زندہ رکھنا ہے ان کو جو کہ مَرے نہیں
وہ اگر مِرا کہا ٹال دیں
تو میں اپنی قبر پہ لکھ کے عرش پہ لوٹ جاؤں گا خواب کے
مرے خواب میں مرا عرش ہے
جہاں مجھ کو کوئی بھی ڈر نہیں
نہ گناہ کا نہ ثواب کا
نہ زوال کا نہ حساب کا
نہ سوال کا نہ جواب کا
نہ وبال کا نہ عذاب کا
مجھے جا کے ٹوٹے ہوئے کناروں کو جوڑنا ہے مزار کے
اسے لے کے آنا ہے قبر پر
وہاں بیٹھ کے
مجھے اپنے ہاتھ سے لکھ کے رکھنا ہے زندگی
ہائے زندگی، ہائے زندگی
مرے بس میں ہوتی تو لوٹ آتا میں فرش پر
یہ زمین کی کوئی خاص چیز ہے زندگی
مجھے اس کے بارے میں اس سے زیادہ پتہ نہیں
میں خدا نہیں
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *