ہمیں خود نپٹنا معاملات سے چاہئیے

ہمیں خود نپٹنا معاملات سے چاہئیے
کوئی کون ہوتا ہے تیرے اور مرے درمیاں
کوئی محنتوں کا ثمر ہی دے جو سدا تو کیا
مجھے بن کہے کبھی دے تو سمجھوں کہ مل گیا
تیری روشنی تو تری صفت کا ثبوت ہے
کوئی خیر اس کو کہے تو کس طرح مان لوں
یا ہماری بصری بصیرتیں تھیں یا ہر طرف
ترے خال و خد کی علامتوں کا زوال تھا
کوئی وہم نقطہء بے زباں کا اسیر تھا
جو صدا کے پیکر مرتعش میں نہ آسکا
فرحت عباس شاہ
(کتاب – ابھی خواب ہے)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *