وہ بولی ہجر کے مارے ہوؤں کی بات کرتے ہیں

وہ بولی ہجر کے مارے ہوؤں کی بات کرتے ہیں
میں بولا ہجر کے مارے ہوؤں کی کون سنتا ہے
وہ بولی میں سمندر کے کنارے گھر بناؤں گی
میں بولا میں ضرور آؤں گا تم دونوں سے ملنے کو
وہ بولی میں سمندر سے کہوں گی شام آنکھوں میں
کسی موجِ فنا سے لکھ دے تیرا نام آنکھوں میں
وہ بولی میں کہوں گی کوئی تو پیغام آنکھوں میں
کسی کا پیار ہے میرے لیے انعام آنکھوں میں
میں بولا ہو سکے تو آج مجھ کو تھام آنکھوں میں
وگرنہ گم ہوا میں بھی تری بدنام آنکھوں میں
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *