وہ کہیں راستہ بھٹک جائے، یہ تو ممکن نہ تھا مگر پھر بھی

وہ کہیں راستہ بھٹک جائے، یہ تو ممکن نہ تھا مگر پھر بھی
تم چراغوں کی بات کرتے ہو، ہم نے دیوار و در جلا رکھے
تم سمجھتے ہو آفتاب ڈھلے، شام دیوار و در پہ ڈھلتی ہے
مجھ سے پوچھو تو انتظار کا غم، دل کے آنگن میں پھیل جاتا ہے
ایک بے چینی روز پوچھتی ہے، کوئی دستِ شفا بھی ہے کہ نہیں
ہم اسے یونہی بے تُکے ہنس ہنس، باتوں باتوں میں تال دیتے ہیں
ہم تری رہگزر تھے اور جاناں، تیرے قدموں کے انتظار میں تھے
سوچتے تھے کہ راستوں کے بھی، اپنے اپنے نصیب ہوتے ہیں
اس ہماری زمیں کے سینے پر، کیا خبر کیسے کیسے جنگل تھے
وحشتیں اس طرح ہوئیں آباد، بستیاں کھا گئیں درختوں کو
فرحت عباس شاہ
(کتاب – محبت گمشدہ میری)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *