یہ جو آنسوؤں میں غرور ہے

یہ جو آنسوؤں میں غرور ہے
یہ محبتوں کا فتور ہے
ترا آسمان قریب تھا
مرا آسمان تو دور ہے
مجھے کہہ رہی تھی وہ عزم سے
مجھے تم کو پانا ضرور ہے
یہ میری شبیہہ نہیں، سنو
یہ تو میری آنکھوں کا نور ہے
ترے عشق کا تری روح کا
میری وحشتوں میں ظہور ہے
مری شاعری کی رگوں میں سب
تری چاہتوں کا سرور ہے
مجھے اپنے رتبے کا علم ہے
مجھے اپنے غم کا شعور ہے
مری روح غم سے نڈھال ہے
مری ذات ہجر سے چور ہے
تری نیک نامی میں کافی کچھ
مری بے کلی کا قصور ہے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – کہاں ہو تم)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *