میرزا اسد الله غالب – اردو غزلیات
چاہیے اچھّوں کو، جتنا چاہیے
چاہیے اچھّوں کو، جتنا چاہیے چاہیے اچھّوں کو، جتنا چاہیے یہ اگر چاہیں تو پھر کیا چاہیے صُحبتِ رنداں سے واجب ہے حَذر جائے مے،…
جادۂ رہ خُور کو وقتِ شام ہے تارِ شعاع
جادۂ رہ خُور کو وقتِ شام ہے تارِ شعاع جادۂ رہ خُور کو وقتِ شام ہے تارِ شعاع چرخ وا کرتا ہے ماہِ نو سے…
پینس میں گزرتے ہیں جو کوچے سے وہ میرے
پینس میں گزرتے ہیں جو کوچے سے وہ میرے پینس میں گزرتے ہیں جو کوچے سے وہ میرے کندھا بھی کہاروں کو بدلنے نہیں دیتے
بھولے سے کاش وہ ادھر آئیں تو شام ہو[1]
بھولے سے کاش وہ ادھر آئیں تو شام ہو[1] بھولے سے کاش وہ ادھر آئیں تو شام ہو کیا لطف ہو جو ابلقِ دوراں بھی…
بسکہ حیرت سے ز پا افتادۂ زنہار ہے
بسکہ حیرت سے ز پا افتادۂ زنہار ہے بسکہ حیرت سے ز پا افتادۂ زنہار ہے ناخنِ انگشت تبخالِ لبِ بیمار ہے زلف سے شب…
ایک دن مثلِ پتنگِ کاغذی
ایک دن مثلِ پتنگِ کاغذی ایک دن مثلِ پتنگِ کاغذی لے کے دل سر رشتۂ آزادگی خود بخود کچھ ہم سے کَنیانے لگا اس قدر…
افسوس کہ دنداں کا کیا رزق فلک نے
افسوس کہ دنداں کا کیا رزق فلک نے افسوس کہ دنداں [1] کا کیا رزق فلک نے جن لوگوں کی تھی درخورِ عقدِ گہر انگشت…
اپنا احوالِ دلِ زار کہوں یا نہ کہوں
اپنا احوالِ دلِ زار کہوں یا نہ کہوں اپنا احوالِ دلِ زار کہوں یا نہ کہوں ہے حیا مانعِ اظہار۔ کہوں یا نہ کہوں نہیں…
یونہی افزائشِ وحشت کے جو ساماں ہوں گے
یونہی افزائشِ وحشت کے جو ساماں ہوں گے یونہی افزائشِ وحشت کے جو ساماں ہوں گے دل کے سب زخم بھی ہم شکلِ گریباں ہوں…
وہ بات چاہتے ہو کہ جو بات چاہیے
وہ بات چاہتے ہو کہ جو بات چاہیے وہ بات چاہتے ہو کہ جو بات چاہیے صاحب کے ہم نشیں کو کرامات چاہیے مسجد کے…
ہے بزمِ بتاں میں سخن آزردہ لبوں سے
ہے بزمِ بتاں میں سخن آزردہ لبوں سے ہے بزمِ بتاں میں سخن آزردہ لبوں سے تنگ آئے ہیں ہم ایسے خوشامد طلبوں سے ہے…
ہلاکِ بے خبری نغمۂ وجود و عدم
ہلاکِ بے خبری نغمۂ وجود و عدم ہلاکِ بے خبری نغمۂ وجود و عدم جہان و اہلِ جہاں سے جہاں جہاں آباد
نہیں کہ مجھ کو قیامت کا اعتقاد نہیں
نہیں کہ مجھ کو قیامت کا اعتقاد نہیں شبِ فراق سے روزِ جزا زیاد نہیں کوئی کہے کہ “شبِ مَہ میں کیا بُرائی ہے” بلا…
نِکوہِش ہے سزا فریادیِ بیدادِ دِلبر کی
نِکوہِش ہے سزا فریادیِ بیدادِ دِلبر کی نِکوہِش ہے سزا فریادیِ بیدادِ دِلبر کی مبادا خندۂ دنداں نما ہو صبح محشر کی رگِ لیلیٰ کو…
میں انہیں چھیڑوں اور کچھ نہ کہیں
میں انہیں چھیڑوں اور کچھ نہ کہیں میں انہیں چھیڑوں اور کچھ نہ کہیں چل نکلتے جو مے پیے ہوتے قہر ہو یا بلا ہو…
مستی، بہ ذوقِ غفلتِ ساقی ہلاک ہے
مستی، بہ ذوقِ غفلتِ ساقی ہلاک ہے مستی، بہ ذوقِ غفلتِ ساقی ہلاک ہے موجِ شراب یک مژۂ خوابناک ہے جُز زخمِ تیغِ ناز، نہیں…
لو ہم مریضِ عشق کے بیمار دار ہیں
لو ہم مریضِ عشق کے بیمار دار ہیں لو ہم مریضِ عشق کے بیمار دار [1] ہیں اچھّا اگر نہ ہو تو مسیحا کا کیا…
گو ایک بادشاہ کے سب خانہ زاد ہیں
گو ایک بادشاہ کے سب خانہ زاد ہیں گو ایک بادشاہ کے سب خانہ زاد ہیں درباردار لوگ بہم آشنا نہیں کانوں پہ ہاتھ دھرتے…
گر خامشی سے فائده اخفائے حال ہے
گر خامشی سے فائده اخفائے حال ہے گر خامشی سے فائده اخفائے حال ہے خوش ہوں کہ میری بات سمجھنی محال ہے کس کو سناوں…
کہتے ہیں کہ اب وہ مَردُم آزار نہیں
کہتے ہیں کہ اب وہ مَردُم آزار نہیں کہتے ہیں کہ اب وہ مَردُم آزار نہیں عُشّاق کی پُرسش سے اُسے عار نہیں جو ہاتھ…
کار گاہ ہستی میں لالہ داغ ساماں ہے
کار گاہ ہستی میں لالہ داغ ساماں ہے کار گاہ ہستی میں لالہ داغ ساماں ہے برقِ خرمنِ راحت، خونِ گرمِ دہقاں ہے غنچہ تا…
غافل بہ وہمِ ناز خود آرا ہے ورنہ یاں
غافل بہ وہمِ ناز خود آرا ہے ورنہ یاں غافل بہ وہمِ ناز خود آرا ہے ورنہ یاں بے شانۂ صبا نہیں طُرّہ گیاہ کا…
عالم جہاں بعرضِ بساطِ وجود تھا
عالم جہاں بعرضِ بساطِ وجود تھا جوں صبح، چاکِ جَیب مجھے تار و پود تھا جز قیس اور کوئی نہ آیا بروئے کار صحرا، مگر،…
شمار سبحہ، مرغوبِ بتِ مشکل پسند آیا
شمار سبحہ، مرغوبِ بتِ مشکل پسند آیا تماشائے بہ یک کف بُردنِ صد دل، پسند آیا بہ فیضِ بے دلی، نومیدیِ جاوید آساں ہے کشائش…
شب خمارِ شوقِ ساقی رستخیز اندازہ تھا
شب خمارِ شوقِ ساقی رستخیز اندازہ تھا شب خمارِ شوقِ ساقی رستخیز اندازہ تھا تا محیطِ بادہ صورت خانۂ خمیازہ تھا یک قدم وحشت سے…
سامانِ خور و خواب کہاں سے لاؤں
سامانِ خور و خواب کہاں سے لاؤں سامانِ خور و خواب کہاں سے لاؤں آرام کے اسباب کہاں سے لاؤں روزہ مِرا اِیمان ہے غالبؔ!…
رُخِ نگار سے ہے سوزِ جاودانیِ شمع
رُخِ نگار سے ہے سوزِ جاودانیِ شمع رُخِ نگار سے ہے سوزِ جاودانیِ شمع ہوئی ہے آتشِ گُل آبِ زندگانیِ شمع زبانِ اہلِ زباں میں…
دہر میں نقشِ وفا وجہ تسلی نہ ہوا
دہر میں نقشِ وفا وجہ تسلی نہ ہوا ہے یہ وہ لفظ کہ شرمندۂ معنی نہ ہوا نہ ہوئی ہم سے رقم حیرتِ خطِّ رخِ…
درد سے میرے ہے تجھ کو بے قراری ہائے ہائے
درد سے میرے ہے تجھ کو بے قراری ہائے ہائے درد سے میرے ہے تجھ کو بے قراری ہائے ہائے کیا ہوئی ظالم تری غفلت…
حق شہ کی بقا سے خلق کو شاد کرے
حق شہ کی بقا سے خلق کو شاد کرے حق شہ کی بقا سے خلق کو شاد کرے تا شاہ شیوعِ دانش و داد کرے…
چاک کی خواہش، اگر وحشت بہ عُریانی کرے
چاک کی خواہش، اگر وحشت بہ عُریانی کرے چاک کی خواہش، اگر وحشت بہ عُریانی کرے صبح کے مانند، زخمِ دل گریبانی کرے جلوے کا…
جادہ ره خُور کو وقتِ شام ہے تارِ شعاع
جادہ ره خُور کو وقتِ شام ہے تارِ شعاع جادہ ره خُور کو وقتِ شام ہے تارِ شعاع چرخ وا کرتا ہے ماهِ نو سے…
پینس میں گزرتے ہیں جو کوچے سے وه میرے
پینس میں گزرتے ہیں جو کوچے سے وه میرے پینس میں گزرتے ہیں جو کوچے سے وه میرے کندھا بھی کہاروں کو بدلنے نہیں دیتے
بے اعتدالیوں سے س بُک سب میں ہم ہوئے
بے اعتدالیوں سے س بُک سب میں ہم ہوئے بے اعتدالیوں سے س بُک سب میں ہم ہوئے جتنے زیاده ہو گئے اتنے ہی کم…
بساطِ عجز میں تھا ایک دل یک قطرہ خوں وہ بھی
بساطِ عجز میں تھا ایک دل یک قطرہ خوں وہ بھی بساطِ عجز میں تھا ایک دل یک قطرہ خوں وہ بھی سو رہتا ہے…
ایک اہلِ درد نے سنسان جو دیکھا قفس
ایک اہلِ درد نے سنسان جو دیکھا قفس ایک اہلِ درد نے سنسان جو دیکھا قفس یوں کہا آتی نہیں اب کیوں صدائے عندلیب؟ [1]…
اسدؔ! یہ عجز و بے سامانئِ فرعون توَام ہے
اسدؔ! یہ عجز و بے سامانئِ فرعون توَام ہے اسدؔ! یہ عجز و بے سامانئِ فرعون توَام ہے جسے تو بندگی کہتا ہے دعویٰ ہے…
ابنِ مریم ہوا کرے کوئی
ابنِ مریم ہوا کرے کوئی ابنِ مریم ہوا کرے کوئی میرے دکھ کی دوا کرے کوئی شرع و آئین پر مدار سہی ایسے قاتل کا…
یوں بعدِ ضبطِ اشک پھروں گرد یار کے
یوں بعدِ ضبطِ اشک پھروں گرد یار کے یوں بعدِ ضبطِ اشک پھروں گرد یار کے پانی پیے کسو پہ کوئی جیسے وار کے سیماب…
وفا جفا کی طلب گار ہوتی آئی ہے
وفا جفا کی طلب گار ہوتی آئی ہے وفا جفا کی طلب گار ہوتی آئی ہے ازل کے دن سے یہ اے یار ہوتی آئی…
ہے آرمیدگی میں نکوہش بجا مجھے
ہے آرمیدگی میں نکوہش بجا مجھے ہے آرمیدگی میں نکوہش بجا مجھے صبحِ وطن ہے خندۂ دنداں نما مجھے ڈھونڈے ہے اس مغنّیِ آتش نفس…
ہم پر جفا سے ترکِ وفا کا گماں نہیں
ہم پر جفا سے ترکِ وفا کا گماں نہیں ہم پر جفا سے ترکِ وفا کا گماں نہیں اِک چھیڑ ہے وگرنہ مراد امتحاں نہیں…
نہ ہوئی گر مرے مرنے سے تسلّی نہ سہی
نہ ہوئی گر مرے مرنے سے تسلّی نہ سہی نہ ہوئی گر مرے مرنے سے تسلّی نہ سہی امتحاں اور بھی باقی ہو تو یہ…
نقشِ نازِ بتِ طنّاز بہ آغوشِ رقیب
نقشِ نازِ بتِ طنّاز بہ آغوشِ رقیب نقشِ نازِ بتِ طنّاز بہ آغوشِ رقیب پائے طاؤس پئے خامۂ مانی مانگے تو وہ بد خو کہ…
مے کشی کو نہ سمجھ بےحاصل
مے کشی کو نہ سمجھ بےحاصل مے کشی کو نہ سمجھ بےحاصل باده غالبؔ عرقِ بید نہیں
مشکل ہے زبس کلام میرا اے دل
مشکل ہے زبس کلام میرا اے دل مشکل ہے زبس کلام میرا اے دل سُن سُن کے اسے سخنورانِ کامل آساں کہنے کی کرتے ہیں…
مانع دشت نوردی کوئی تدبیر نہیں
مانع دشت نوردی کوئی تدبیر نہیں مانع دشت نوردی کوئی تدبیر نہیں ایک چکّر ہے مرے پاؤں میں زنجیر نہیں شوق اس دشت میں دوڑائے…
گھر میں تھا کیا کہ ترا غم اسے غارت کرتا
گھر میں تھا کیا کہ ترا غم اسے غارت کرتا گھر میں تھا کیا کہ ترا غم اسے غارت کرتا وہ جو رکھتے تھے ہم…
کیوں نہ ہو چشمِ بُتاں محوِ تغافل، کیوں نہ ہو
کیوں نہ ہو چشمِ بُتاں محوِ تغافل، کیوں نہ ہو یعنی اس بیمار کو نظارے سے پرہیز ہے مرتے مرتے، دیکھنے کی آرزُو رہ جائے…
کہتے ہو نہ دیں گے ہم دل اگر پڑا پایا
کہتے ہو نہ دیں گے ہم دل اگر پڑا پایا دل کہاں کہ گم کیجے؟ ہم نے مدعا پایا ہے کہاں تمنّا کا دوسرا قدم…