بیدم شاہ وارثی
پاس ادب مجھے انہیں شرم و حیا نہ ہو
پاس ادب مجھے انہیں شرم و حیا نہ ہو نظارہ گاہ میں اثر ماسوا نہ ہو مانا مری قبول نہیں ہے دعا نہ ہو اتنا…
مجھ سے چھپ کر مرے ارمانوں کو برباد نہ کر
مجھ سے چھپ کر مرے ارمانوں کو برباد نہ کر داد خواہی کے لیے آیا ہوں بیداد نہ کر دیکھ مٹ جائے گا ہستی سے…
تو ہی جب قصۂ غم سے مرے گھبراتا ہے
تو ہی جب قصۂ غم سے مرے گھبراتا ہے پھر سنے کون مرے غم کی کہانی صنما بیدم شاہ وارثی
گل کا کیا جو چاک گریباں بہار نے
گل کا کیا جو چاک گریباں بہار نے دست جنوں لگے مرے کپڑے اتارنے چھوڑا کہیں نہ مجھ کو نسیم بہار نے کنج قفس میں…
میرے نالہ سن کے فرماتے ہیں وہ
میرے نالہ سن کے فرماتے ہیں وہ یہ اسی کی دکھ بھری آواز ہے بیدم شاہ وارثی
وہ بار بار میرا لپٹنا شب وصال
وہ بار بار میرا لپٹنا شب وصال ان کا جھجک کے کہنا کوئی دیکھتا نہ ہو بیدم شاہ وارثی
خنجر بکف وہ کہتے ہیں اب آئے سامنے
خنجر بکف وہ کہتے ہیں اب آئے سامنے کس کو خیال وصل ہے ارمان دید ہے بیدم شاہ وارثی
نہ تو اپنے گھر میں قرار ہے نہ تری گلی میں – 1
نہ تو اپنے گھر میں قرار ہے نہ تری گلی میں قیام ہے تری زلف و رخ کا فریفتہ کہیں صبح ہے کہیں شام ہے…
اس سیہ بخت کی راتیں بھی کوئی راتیں ہیں
اس سیہ بخت کی راتیں بھی کوئی راتیں ہیں خواب راحت بھی جسے خواب پریشاں ہو جائے بیدم شاہ وارثی
ستم گر تجھ سے امید کرم ہوگی جنہیں ہوگی
ستم گر تجھ سے امید کرم ہوگی جنہیں ہوگی ہمیں تو دیکھنا یہ تھا کہ تو ظالم کہاں تک ہے بیدم شاہ وارثی
مجھی کو دیکھ لیں اب تیرے دیکھنے والے
مجھی کو دیکھ لیں اب تیرے دیکھنے والے تو آئینہ ہے مرا تیرا آئینا ہوں میں بیدم شاہ وارثی
یوں گلشن ہستی کی مالی نے بنا ڈالی
یوں گلشن ہستی کی مالی نے بنا ڈالی پھولوں سے جدا کلیاں کلیوں سے جدا ڈالی سر رکھ کے ہتھیلی پر اور لخت جگر چن…
صدقے اے قاتل ترے مجھ تشنۂ دیدار کی
صدقے اے قاتل ترے مجھ تشنۂ دیدار کی تشنگی جاتی رہی آب دم شمشیر سے بیدم شاہ وارثی
نہ قرب گل کی تاب تھی نہ ہجر گل میں چین تھا
نہ قرب گل کی تاب تھی نہ ہجر گل میں چین تھا چمن چمن پھرے ہم اپنا آشیاں لیے ہوئے بیدم شاہ وارثی
اسرار محبت کا اظہار ہے نا ممکن
اسرار محبت کا اظہار ہے نا ممکن ٹوٹا ہے نہ ٹوٹے گا قفل در خاموشی بیدم شاہ وارثی
عاشق نہ ہو تو حسن کا گھر بے چراغ ہے
عاشق نہ ہو تو حسن کا گھر بے چراغ ہے لیلیٰ کو قیس شمع کو پروانہ چاہیے بیدم شاہ وارثی
ہم میکدے سے مر کے بھی باہر نہ جائیں گے
ہم میکدے سے مر کے بھی باہر نہ جائیں گے میکش ہماری خاک کے ساغر بنائیں گے وہ اک کہیں گے ہم سے تو ہم…
اپنی ہستی کا اگر وصف نمایاں ہو جائے
اپنی ہستی کا اگر وصف نمایاں ہو جائے آدمی کثرت انوار سے حیراں ہو جائے تم جو چاہو تو مرے درد کا درماں ہو جائے…
شادی و الم سب سے حاصل ہے سبکدوشی
شادی و الم سب سے حاصل ہے سبکدوشی سو ہوش مرے صدقے تجھ پر مری بے ہوشی گم ہونے کو پا جانا کہتے ہیں محبت…
ہم رنج بھی پانے پر ممنون ہی ہوتے ہیں
ہم رنج بھی پانے پر ممنون ہی ہوتے ہیں ہم سے تو نہیں ممکن احسان فراموشی بیدم شاہ وارثی
ہماری زندگی تو مختصر سی اک کہانی تھی
ہماری زندگی تو مختصر سی اک کہانی تھی بھلا ہو موت کا جس نے بنا رکھا ہے افسانہ بیدم شاہ وارثی
طور والے تری تنویر لیے بیٹھے ہیں
طور والے تری تنویر لیے بیٹھے ہیں ہم تجھی کو بت بے پیر لیے بیٹھے ہیں جگر و دل کی نہ پوچھو جگر و دل…
نہ محراب حرم سمجھے نہ جانے طاق بت خانہ
نہ محراب حرم سمجھے نہ جانے طاق بت خانہ جہاں دیکھی تجلی ہو گیا قربان پروانہ دل آزاد کو وحشت نے بخشا ہے وہ کاشانہ…
اف رے باد جوش جوانی آنکھ نہ ان کی اٹھتی تھی
اف رے باد جوش جوانی آنکھ نہ ان کی اٹھتی تھی مستانہ ہر ایک ادا تھی ہر عشوہ مستانہ تھا بیدم شاہ وارثی
عشق کے آثار ہیں پھر غش مجھے آیا دیکھو
عشق کے آثار ہیں پھر غش مجھے آیا دیکھو پھر کوئی روزن دیوار سے جھانکا دیکھو ان کے ملنے کی تمنا میں مٹا جاتا ہوں…
ہلکی سی اک خراش ہے قاصد کے حلق پر
ہلکی سی اک خراش ہے قاصد کے حلق پر یہ خط جواب خط ہے کہ خط کی رسید ہے بیدم شاہ وارثی
اے جنوں کیوں لیے جاتا ہے بیاباں میں مجھے
اے جنوں کیوں لیے جاتا ہے بیاباں میں مجھے جب تجھے آتا ہے گھر کو مرے صحرا کرنا بیدم شاہ وارثی
کعبے کا شوق ہے نہ صنم خانہ چاہیے
کعبے کا شوق ہے نہ صنم خانہ چاہیے جانانہ چاہیئے درِ جانانہ چاہیے ساغر کی آرزو ہے نہ پیمانہ چاہیے بس اک نگاہِ مرشدِ مے…
نہ تو اپنے گھر میں قرار ہے نہ تری گلی میں
نہ تو اپنے گھر میں قرار ہے نہ تری گلی میں قیام ہے تری زلف و رخ کا فریفتہ کہیں صبح ہے کہیں شام ہے…
اے چشم تمنا تری امید بر آئے
اے چشم تمنا تری امید بر آئے اٹھتا ہے نقاب رخ جانانہ مبارک بیدم شاہ وارثی
قفس میں بھی وہی خواب پریشاں دیکھتا ہوں میں
قفس میں بھی وہی خواب پریشاں دیکھتا ہوں میں کہ جیسے بجلیوں کی رو فلک سے آشیاں تک ہے بیدم شاہ وارثی
بتائے دیتی ہے بے پوچھے راز سب دل کے
بتائے دیتی ہے بے پوچھے راز سب دل کے نگاہ شوق کسی کی نگاہ سے مل کے نکالے حوصلہ مقتل میں اپنے بسمل کے نثار…
کیسے کہہ دوں کہ غیر سے ملئے
کیسے کہہ دوں کہ غیر سے ملئے ان کہی تو کہی نہیں جاتی بیدم شاہ وارثی
بلبل کو مبارک ہو ہوائے گل و گلشن
بلبل کو مبارک ہو ہوائے گل و گلشن پروانے کو سوز دل پروانہ مبارک بیدم شاہ وارثی
کھینچی ہے تصور میں تصویر ہم آغوشی
کھینچی ہے تصور میں تصویر ہم آغوشی اب ہوش نہ آنے دے مجھ کو مری بے ہوشی پا جانا ہے کھو جانا کھو جانا ہے…
اسے بھی ناوک جاناں تو اپنے ساتھ لیتا جا
اسے بھی ناوک جاناں تو اپنے ساتھ لیتا جا کہ میری آرزو دل سے نکلنے کو ترستی ہے بیدم شاہ وارثی
کیا گلہ اس کا جو میرا دل گیا
کیا گلہ اس کا جو میرا دل گیا مل گئے تم مجھ کو سب کچھ مل گیا جس کو آنکھیں ڈھونڈھتی تھیں پا گئیں دل…
پردے اٹھے ہوئے بھی ہیں ان کی ادھر نظر بھی ہے
پردے اٹھے ہوئے بھی ہیں ان کی ادھر نظر بھی ہے بڑھ کے مقدر آزما سر بھی ہے سنگ در بھی ہے جل گئی شاخ…
گل کا کیا جو چاک گریباں بہار نے
گل کا کیا جو چاک گریباں بہار نے دست جنوں لگے مرے کپڑے اتارنے بیدم شاہ وارثی