اس ستم گار نے سیکھا ہے خفا ہو جانا

اس ستم گار نے سیکھا ہے خفا ہو جانا
کیا قیامت ہوا نالوں کا رسا ہو جانا

نزع میں بڑھ کے کھٹک دل سے یہی کہتی ہے
آج تو درد کا ممکن ہے دوا ہو جانا

لے کے پیغام قضا باد بہاری آئی
نا مبارک ہوا زخموں کا ہرا ہو جانا

عرش تھرائے گا اغیار کے دل ٹوٹیں گے
نالہ کرتا ہوں مگر تم نہ خفا ہو جانا

دم نکلنا ہے یہی جان کا جانا ہے یہی
دل کا آساں نہیں پہلو سے جدا ہو جانا

پس مردن بھی رہے خانۂ زنجیر میں پاؤں
اس طرح چاہیے پابند وفا ہو جانا

زلزلے آ کے زمانے کو خبر دیتے ہیں
نہیں ممکن تپش دل کا فنا ہو جانا

جان لے جائے گا اور درد بڑھا جائے گا
ہاتھ تیرا مرے سینے سے جدا ہو جانا

ابھی بیٹھے رہو میں دیکھ رہا ہوں تم کو
نزع کے وقت گلے مل کے جدا ہو جانا

سمجھو کس درجہ ہے سوز غم الفت دشوار
دیکھ پروانوں کا جل جل کے فنا ہو جانا

زہر بھر دیتا ہے زخموں میں دل وحشی کے
فصل باراں میں بیاباں کا ہرا ہو جانا

ناصری پھر وہی ہم ہیں وہی شوریدہ سری
پھر وہی حاضر بزم شعرا ہو جانا

ناصری لکھنوی

Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *